مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر
چوپال پہ بوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر
معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی
تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر
پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر
ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں
تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر
کیا خوب لڑکپن تھاکہ ساون کے دنوں میں
تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر
مانگے ہوئے سورج سے تو بہترہے اندھیرا
تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر
ترتیب ترے حسن کی مٹ جائے گی اک دن
دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر
تحریر کا یہ آخری رشہ بھی گیا ٹوٹ
کتنا ہوں میں تنہا ترے مکتوب جلا کر
آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں
ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر
وہ قحط ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ
جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر
No comments:
Post a Comment