ہم لوگوں میں سے اکثر اپنی ذات سے باہر نہیں آ پاتے، بس اپنے اندر کے چپے چپے سے ریت کے ڈھیروں کو چھان چھان کر دیکھتے ہیں کہ کوئی خزانہ مل جائے، اور وہ خزانہ خوشی کی شکل میں ملے یا دکھ کی شکل میں ! جب وہ مل جاتا ہے تو لے کر آرام سے کنارے پر بیٹھ جاتے ہیں، خوشی مل جائے تو قہقہوں کی گونج سے اندر بجھی بتیاں جل جاتی ہیں، اور دکھ مل جائیں تو آنسوؤں کا طوفان برپا ہو جاتا ہے، ہم چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ دراصل ایک انسانی دماغ اپنے اندر ایک پوری کائنات چھپا کر بیٹھا ہے، جیسے باہر کی کائنات میں طرح طرح کے راز چھپے ہیں جو کبھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو کبھی ہم پر عیاں ہو جاتے ہیں۔
موسموں کی بابت دیکھا تو معلوم ہوا باہر کے موسموں کی طرح اندر کے موسموں نے بھی اپنی ایک دنیا آباد کر رکھی ہے۔ جذبوں کی ہوا، احساسات کی بارش، بغاوتوں کے سمندر، دکھوں کی آندھیاں، صدموں کے طوفان، قہقوں کے ان گنت پھول، آنسوؤں کے بے شمار کانٹے حضرت انسان کے اندر یوں موجود ہیں کہ کسی ایک کا بھی نکالے جانا ممکن نہیں یہ سب موسم ہمیں باہر بھی یوں ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کو دیکھنا سطحی ہوتا ہے۔
جب آپ کسی کو سڑک کے دوسرے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں، آپ کا تاثر اس شخص کے متعلق مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی، کتابِ حیات کا مطالعہ تب تک ممکن ہی نہیں کہ جب تک آپ اگلا صفحہ نا پلٹ لیں، اور اگلے صفحے پر کیا کیا راز افشاں ہونگے اور ان کو پڑھ کر ہمیں کیا محسوس ہو گا اس کی پیشن گوئی کون کر سکتا ہے کسی ایک انسان سوانح حیات پر ہزاروں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ہر کتاب کے ہر صفحے کی ہر سطر میں ایک نیا راز پوشیدہ ہو سکتا ہے۔
سطر سطر زندگی کے حقیقتیں حضرت انسان کی اندر موجود ہیں اور بعض اوقات ان سے واقفیت انسان کو خود بھی نہیں ہو پاتی، کہنےکو ہم ہماری ذات کو جاننے والا واحد شخص ہی ہوتے ہیں لیکن مسئلہ ہی دراصل یہ ہے کہ ہم خود کو جانتے ہی نہیں ہیں، اور اسی تلاش میں عمر بیت جاتی ہے، ایک کہانی اختتام پذیر ہو جاتی ہے مگر در حقیقت وہ کہانی پھر بھی کسی نا کسی کی زبان سے بیان ہوتی ہی رہتی ہے وہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی، لوگ بچھڑ جاتے ہیں، لوگ مر جاتے ہیں لیکن وہ ان سے منسلک کہانیاں جو کبھی خوشی و تکلیف کا باعث ہوں ہمیں یاد رہتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment