شیدائی محبت کا جس راستے پر چلا جائے
مانندِ کاغذ کی ناؤ بہتا ہی چلا جائے
آویزاں آئینئہ دل میں بھی اسکی تصویر ہے
پھر بھی من پاگل اسے ڈھونڈتا ہی چلا جائے
جی میں جس کے جب آئے وصل کا خیال
دیوانگی کے عالم میں پکارتا ہی چلا جائے
برکھا غم کی جب آنکھوں میں اُترتی ہے
اک سیلاب اشکوں کا اُمڈتا ہی چلا جائے
وفا کو مدعی نے دیا الزام ہجر کا جب
درد تب سے سینے میں اُٹھتا ہی چلا جائے
معاف کر دینا ہی بہت بڑا انتقام ہے بس
حریف دریائے ندامت میں بہتا ہی چلا جائے
فضا میں مایوسی کی کہیں ایسا نہ ہوعاشی
تنہائی کی دلدل میں دل دھنستا ہی چلا جائے
No comments:
Post a Comment