پاگل لڑکی
مرے وجدان کو چُھونا چاہتی ہے
اقرار کے شبستانوں میں
جزیرے ڈھونڈ کر
پلکیں بچھانا چاہتی ہے
درد قافلہ راہوں میں
صبر آزما ہونا چاہتی ہے
شکستہ در کی ٹوٹی چوکھٹ پر
آخری سانس کی حدت کوچھونا چاہتی ہے
پاگل لڑکی
بھول جاتی ہے کہ
ٹوٹی ہوئی نیند خوابوں سے جدا کرتی ہے
اور
ہوائیں چراغوں کو گُل کردیتی ہیں
No comments:
Post a Comment