Saturday, September 20, 2014

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے



کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیری جستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندہء نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرض ِ حال سے بے آبرو کرے

No comments: