Sunday, September 21, 2014

اندھیری رات ہے، رستہ سجھائی دے تو چلیں


اندھیری رات ہے، رستہ سجھائی دے تو چلیں
کوئی کرن، کوئی جگنو دکھائی دے تو چلیں

رکے ہیں یوں تو سلاسل پڑے ہیں پاؤں میں
زمین بندِ وفا سے رہائی دے تو چلیں

سفر پہ نکلیں مگر سمت کی خبر تو ملے
سرِ فلک کوئی تارا دکھائی دے تو چلیں

دیارِ گل سے تہی دست کس طرح جائیں
کوئی یہاں بھی غم آشنائی دے تو چلیں

ابھی تو سر پہ کڑی دوپہر کا پہرہ ہے
شفق زمین کو رنگِ حنائی دے تو چلیں

کسی طرف سے تو کوئی بلاوا آ جائے
کوئی صدا سرِ محشر سنائی دے تو چلیں.

No comments: