میرے خُلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
یہ جُھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
وہ سب سے مِلتے ہوئے ہم سے مِلنے آتا ہے ۔ ۔ ۔
ہم اِس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
پُرانے زخم ہی کافی ہیں شُمار کرنے کو ۔ ۔ ۔
اِس لیے کسی نئے شناسائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا ۔ ۔ ۔
میرے قدم میری پرچھائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دنیا کو ۔ ۔
جو ”عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment