کسی تعبیر کی خواہش میں یہ جیون گنواتے ہیں
اگر اک خواب دیکھا ہے تو قیمت بھی چکاتے ہیں
ھمارے اس سفر کا جانے اب انجام کیسا ہو
کہ جو بھٹکے ہوئے ہیں وہ ہمیں رستہ بتاتے ہیں
انا ، شکوے ، شکایت، روٹھنا، ناراض ہو جانا
تمہیں تو یاد ہو گا ہم یہ اکثر بھول جاتے ہیں
ہمیں بھی چاہیے صاحب کوئی خلعت کوئی منصب
محاذ جنگ سے ھم بھی تو بس ناکام آتے ہیں
ہمارے پاؤں میں رستہ نہیں بس بے قراری ہے
اگر بھٹکیں بھی تو اُس کی طرف ہی لوٹ جاتے ہیں
رضی ہم کو خوشی کوئی کبھی پوری نہیں ملتی
یہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اگر ہم مسکراتے ہٰیں
No comments:
Post a Comment