Wednesday, September 10, 2014

کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے


غزل

کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے
وہ آزمائش دل و نظر کی، وہ قُربتیں سی، وہ فاصلے سے

کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں، آ کے رُکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی، وہ سارے عُنواں وصال کے سے

نگاہ و دل کو قرار کیسا، نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں تو اُن سے ہر بار، کی ہے الفت نئے سرے سے

بہت گراں ہے یہ عیشِ تنہا، کہیں سبک تر، کہیں گوارا
وہ دردِ پنہاں کہ ساری دنیا، رفیق تھی جس کے واسطے سے

تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا
یہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں، وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے

No comments: