Monday, November 17, 2014

ہم کو سہنا ہی پڑا ذات کا دُکھ


ہم کو سہنا ہی پڑا ذات کا دُکھ
درد میں ڈوبی ہوئی رات کا دُکھ

پتھرو، آؤ، سہارو، دیکھو
ایک شیشے سے ملاقات کا دُکھ

ہم کو آزادی کی خواہش نے دِیا
راکھ ہوتے ہوئے باغات کا دُکھ

اے خُدا اور مجھے قوت دے
سہہ سکوں اُن کی عنایات کا دُکھ

تُو مِلا بھی تو مجھے بخش گیا
غیر آسودہ ملاقات کا دُکھ

رہ بدلنے کی شکایت تو نہیں
دُکھ اگر ہے تو حسابات کا دُکھ 

تُو ہے اِک شہر، تجھے کیا معلوم
کیساہوتا ہے مضافات کا دُکھ

بِن ترے ساتھ رہے گا میرے
غیر تکمیل شدہ ذات کا دُکھ 

چَین لینے نہیں دیتا انورؔ
بَین کرتی ہوئی برسات کا دُکھ

منیر انور












My CoNtaCt # Is 0300-7200080 Enjoy My blog.

No comments: