Saturday, September 13, 2014

وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے



وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے
دل کا دروازاہ کھُلا ہے جو وہ آنا چاہے

عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے

دن گزر جاتے ہیں قربت کے نئے رنگوں سے
رات پر رات ہے وہ خواب پرانا چاہے

اک نظر دیکھ مجھے !! میری عبادت کو دیکھ
بھول پائے گا اگر مجھ کو بھلانا چاہے؟

وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی؟
مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے

خون امڈ آیا عبارت میں، ورق چیخ اٹھے
میں نے وحشت میں ترے خط جو جلانا چاہے

نوچ ڈالوں گی اسے اب کے یہی سوچا ہے
گر مری آنکھ کوئی خواب سجانا چاہے

No comments: