Friday, February 19, 2016

بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے

بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سُورج کی شہ پہ تنکے بھی بےباک ہو گئے

بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رُخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے

سُورج دماغ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہو گئے

جب بھی غریبِ شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے

پروین شاکر

No comments: