فراق یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ اک دعا میری جو نامراد لوٹ آئ
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دنوں سے میرے ذہن کے دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم
جو بے یقیں ہو بہاریں اجڑ بھی سکتی ھیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تیری دھوپ چھاوں جیسی ھیں
کبھی یہ ہجر کبھی یہ وصال کا موسم
کوئ ملا ہی نہیں جس کو سونپتے وجہی
ہم اپنے خواب کی خوشبو خیال کا موسم
No comments:
Post a Comment