وہ بارشوں کی دیوانی۔۔۔
محبت تھی جس کی کہانی۔۔۔
اک خواہش کر بیٹھی۔۔۔
ہر دم خود کوبوندوں میں بگھونے کی۔۔۔
پھر اس کے اندر بارش ہونے لگی
۔۔۔اور اس کی روح کو بگھونے لگی۔
بارش،بادل
تم اور میں۔
خوشبو،موسم
تم اور میں۔
کالے بادل، رم جھم بارش
نیلا آنچل
تم اور میں۔
بہتی ندیا، گرتا پانی
آنکھیں، آنسو
تم اور میں۔
پاس کسی دریا کے کوئی
بھیگا جھونپڑ
تم اور میں۔
دور کہیں کوئل کی کُو کُو
گہرا جنگل
تم اور میں۔
برکھا رم جھم گیت سنائے
جھرمٹ ڈالے
تم اور میں۔
دور کہیں پر
چھوٹا سا اک
کچا سا گھر
تم اور میں۔
کاندھا تیرا
اور میرا سر
پــــاگل سی چُپ
تم اور میں !!
ﻣﺤﺒﺖ ﺩﺷﺖِ ﻓﺮﻗﺖ ﻣﯿﮟ
ﺑﻨﺎ ﺭﺧﺖِ ﺳﻔﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﺍﯾﮏ
ﻧﻮﺣﮧ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﭩﮑﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺭﺍﮨﯽ
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻡ ﭘﮧ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﭼﮩﺮﮦ
ﻣﺤﺒﺖ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻌﺒﯿﺮﯾﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍﮎ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﻧﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻦ ﺳﮯ ﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﺮﯾﻠﮯ ﺳﺎﺯ ﺑﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﻮﮐﮭﮯ ﺑﺎﺏ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﻓﺼﻞِ ﺟﺎﮞ ﮐﻮ ﺩﺍﺅ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ
ﮐﺴﯽ ﻓﻨﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﮍﺗﺎ ﺑﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﺭﺍﮒ
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﮐﺎﯾﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻠﺘﮯ ﺗﭙﺘﮯ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻠﺘﺎ ﺳﺎﯾﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮎ ﻗﻀﺎ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺌﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺮﮒِ ﮔﻞ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﺎﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﺍﮎ ﺍﯾﺴﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺑﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮎ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮨﮯ
ﺑﻼ ﮐﯽ ﺧﺎﻣﺸﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﮧ ﻣﮩﮑﯽ ﺍﮎ ﺩﻋﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮎ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺖ ﺟﮭﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮎ ﺳﻠﮕﺘﯽ ﺷﺎﻡ !!!!..
بارش بارش بارش آئی
دیکھو کیسی یادیں لائی
کاغذ کی ناؤ میں سپنے بھیگ رھے تھے
بابا بھائی سارے مل کر کھیل رھے تھے
کِس کی ناؤ آگے ھے
کِس کی ناؤ پیچھے ھے
کِس کی ناؤ ڈوب چلی ھے
کِس کی بازی ختم ھوئی ھے
اک اک کرکے سب کی ناؤ ڈوب گئ تھی
اک اک کرکے سارے سپنے بکھر گئے تھے
اک اک کرکے ھم بھی سارے بکھر گئے تھے
بارش بارش بارش آئی
دیکھو کیسی یادیں لائی
*سُنا ہو گا بہت تم نے*
*کہیں آنکھوں کی رِم جھم
کہیں پلکوں کی شبنم *
*پڑھا ہو گا بہت تُم نے*
*کہیں لہجے کی بارش *
*کہیں ساگر کے آنسو *
*مگر تم نے کبھی ہم دم*
*کہیں دیکھے ؟ کہیں پَرکھے؟*
*کِسی تحریر کے آنسو*
*مجھےمیری ریاضت نے *
*یہی معراج بخشی ہے *
*کہ میں جو الفاظ لکھتا ہوں*
*وہ سب الفاظ روتے ہیں*
*کہ میں جو حرف بُنتا ہوں*
*وہ سارے بَین کرتے ہیں*
*میرے سنگ اس جدائی میں*
*میرے الفاظ روتے ہیں*
*سبھی تعریف کرتے ہیں*
*میری تحریر کی لیکن*
*کبھی کوئی نہیں سُنتا*
*میرے الفاظ کی سِسکی*
*فلک بھی جو ہلا ڈالے*
*میرے الفاظ میں ہیں شامل*
*اُسی تاثیر کے آنسو*
*کبھی دیکھو میرے ہم دم*
*میری تحریر کے آنسو*
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سُورج کی شہ پہ تنکے بھی بےباک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رُخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سُورج دماغ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریبِ شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے
پروین شاکر
لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
جانے اس دل کو یہ آداب کہاں سے آئے
اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا
مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر
چوپال پہ بوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر
معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی
تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر
پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر
ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں
تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر
کیا خوب لڑکپن تھاکہ ساون کے دنوں میں
تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر
مانگے ہوئے سورج سے تو بہترہے اندھیرا
تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر
ترتیب ترے حسن کی مٹ جائے گی اک دن
دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر
تحریر کا یہ آخری رشہ بھی گیا ٹوٹ
کتنا ہوں میں تنہا ترے مکتوب جلا کر
آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں
ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر
وہ قحط ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ
جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻃﻮﺭ ﺳﮯ
ﭼﺎﮨﺎ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﮐﻮ
بے ﺍﻧﺖ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭼﺎﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ
ﺳﯿﭗ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮﮮ
ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﻮ ﮨﻮﺍ
ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﭼﺎﮨﮯ ...
ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﯿﺠﮯ
ﺳﮯ ﮐﺮﻥ ﭘﮭﻮﭨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﻏﻨﭽﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﻣﻮﺳﻢ
ﺳﮯ ﺣﻨﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﮞ ﭨﻮﭨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ
ﺁﺑﻠﮧ ﺑﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﺳﭻ
ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﻭﺳﻌﺖِ ﺩﯾﺪ ﻧﮯ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ
ﺗﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺍﭘﻨﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ
ﺗﯿﺮﯼ ﭘﺮﺳﺘﺶ کی هے
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﺎﺭﺵ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ !فروری ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﮔﮭﭩﻦ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻥ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻮﭖ ﻧﯿﺰﮮ ﮐﯽ ﺍﻧﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺑﺪﻥ ﮐﻮ
ﭼﯿﺮﮮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﺳﮯ ﻧﺎﺁﺷﻨﺎ ﺷﺎﻣﯿﮟ
ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ
ﺩﯾﻮﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﺋﯽ ﺳﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﺑﮯ ﮐﯿﻒ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺑﺎﺩﻝ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺍﻭﮌﮪ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﭼﮭﺎﺟﻮﮞ ﻣﯿﻨﮧ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺟﮭﻮﻡ ﺍﭨﮭﺘﺎ
ﮨﮯ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻭﮨﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﻭﮨﯽ ﺭﺕ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﮭﭩﻦ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﺳﺘﯽ
ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻢ ﻓﻀﺎ ﮐﯽ ﮔﻨﮕﻨﺎﮨﭧ ﺭﻭﺡ ﻣﯿﮟ
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻮﻧﺪﯾﮟ ﭘﮑﮍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﻮﮞ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭﺵ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﮧ
ﺩﯼ ﮨﻮ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻭﮨﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﻭﮨﯽ ﺭﺕ ﮨﮯ
ﮔﮭﭩﻦ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻥ ﮨﯿﮟ ﻓﻀﺎ ﺑﮭﯽ ﮔﻨﮕﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻧﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﻮ
ﭼﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﺅ ﺍﺏ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﺎﺭﺵ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﭼﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﺅ ﺍﺏ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﺎﺭﺵ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
سب کچھ نام تمہارے ....
ساحل
ریت
سمندر
لہریں
بستی
جنگل
صحرا
دریا
خوشبو
بارش
بادل
موسم
پھول
دریچے
سورج
چاند
اور
ستارے
آج یہ سب کچھ نام تمہارے
خواب کی باتیں
یاد کے قصے
سوچ کے پہلو
درد کے آنسو
چین کے نغمے
اترتے وقت کے
بہتے دھارے
آج یہ سب کچھ نام تمہارے
روح کی آھٹ
جسم کی جنبش
خون کی حدت
سانس کی لرزش
آنکھ کا آنسو
ہونٹ کی رنگت
چاہت کے عنوان یہ سارے
آج یہ سب کچھ نام تمہارے
آج یہ سب کچھ نام تمہارے _!!!
فراق یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ اک دعا میری جو نامراد لوٹ آئ
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دنوں سے میرے ذہن کے دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم
جو بے یقیں ہو بہاریں اجڑ بھی سکتی ھیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تیری دھوپ چھاوں جیسی ھیں
کبھی یہ ہجر کبھی یہ وصال کا موسم
کوئ ملا ہی نہیں جس کو سونپتے وجہی
ہم اپنے خواب کی خوشبو خیال کا موسم
رقص کیا کبھی شور مچایا پہلی پہلی بارش میں،
میں تھا میرا پاگل پن تھا پہلی پہلی بارش میں،
ایک اکیلا میں ہی گھر میں خوفزدہ سا بیٹھا تھا،
ورنہ شہر تو بھیگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں،
آنے والے سبز دنوں کی سب شادابی اس سے ہے،
آنکھوں نے جو منظر دیکھا پہلی پہلی بارش میں،
شام پڑے سوجانے والا دیپ بجھا کر یادوں کے،
رات گئے تک جاگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں،
جانے کیا کیا خواب بنے تھے پہلے ساون میں، میں نے،
جانے اس پر کیا کیا لکھا پہلی پہلی بارش میں۔
ﮐﺘﻨﺎ ﺍ ﭼﮭّﺎ ﻟﮕﺘﺎ ھے،
ﮔﮭﺎﺱ پہ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﻨﺎ،
ﺑﮭﻮﺭﮮ ﺑﺎﺩﻝ،
ﮨﻠﮑﯽ ﺑﺎﺭﺵ،
ﺍُﮌﺗﮯ ﺍُﮌﺗﮯ ، ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺍِﮎ ﺷﺎﺥ پہ ﺭُﮎ ﺟﺎﻧﺎ،
کتنا اچها لگتا هے،
ﺍﻭﺭ ﺍﭼﺎﻧﮏ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ،
ﺍِﮎ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺑﺎﺭﺵ،
ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺍﺅﮞ کے ﺟﮭﮑّﮍ ﭼﻠﺘﮯ ہیں،
ﺑﺠﻠﯽ، ﭨﯿﻠﯿﻔﻮﻥ کے ﮐﮭﻤﺒﮯ،
ﺍُﻭﻧﭽﮯ پیڑ ﺍُﮐﮭﮍﺗﮯ ہیں،
ﺟﺐ یہ ﺁﻧﺪﮬﯽ ﺭُﮐﺘﯽ ھے،
ﺍﻭﺭ یہ ﮐﺎﻟﮯ ﺑﺎﺩﻝ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﭩﺘﮯ ہیں،
ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ،
ﭘﺎﺱ کے ﺭﯾﺴﺘﻮﺭﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ کے ﭼﺎﺋﮯ پیتی ﮨﻮﮞ،
ﭘﮭﺮ ﺍُﮌﺗﯽ ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﻮ گنتی ﮨﻮﮞ،
ﮔﮭﺎﺱ پہ ﭘﺎﺅﮞ ﺭکھتی ﮨﻮﮞ،
ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﮨﻨﺴﻨﮯ لگتی ﮨﻮں،
مجھے بارش میں گم پا کر . . . .
وہ معصومیت سےبولی . . .
بتاؤ تو آج ذرا،
میں زیادہ حسین ہوں کہ بارش . . ؟
میں نے مسکرا کے بارش کو دیکھا . . . .
پھر بولا اس پگلی سے . . . .
یہ تو میں نہیں جانتا کہ کون زیادہ حسین ہے . . . .
مگر ہاں ! ! !
اتنا جانتا ہوں . . . . .
جب بارش ہوتی ہے تو تمہاری یاد آتی ہے . . . . .
اور تم یاد آؤ تو بارش کو بھول جاتا ہوں . . . . . . .
اک تیرا ہجر دائمی ھے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ھے مجھے
میری آنکھوں پہ دو مقدس ھاتھ
یہ اندھیرہ بھی روشنی ھے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ھے مجھے
اک اداسی جو اتنے لوگوں میں
نام لے کر پکارتی ھے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ھے کہ رو رہی ھے مجھے
ان پرندوں سے بولنا سیکھا
پیڑ سے خامشی ملی ھے مجھے
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ھوں
پہلی بارش ہی آخری ھے مجھے
بہار رُت میں اجاڑ راستے
تکا کرو گے تو رو پڑو گے
کسی سے ملنے کو جب بھی محسن
سجا کرو گے تو رو پڑو گے
تمھارے وعدوں نے یار مجھ کو
تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے
کے زندگی میں جو پھر کسی سے
دغا کرو گے تو رو پڑو گے
میں جانتا ہوں میری محبت
اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسی
کے چاند راتوں میں اب کسی سے
ملا کرو گے تو رو پڑو گے
برستی بارش میں یاد رکھنا
تمہیں ستائیں گی میری آنکھیں
کسی ولی کے مزار پر جب
دعا کرو گے تو رو پڑو گے
میری جان!
ٹھیک کہتی ہو
ہماری اس محبت کا بھلا کیا فائدہ ہو گا؟
ہمارے درمیاں جو دوریاں ہیں
کم نہیں ہوں گی
کبھی بارش کے موسم میں
ہمشہ ساتھ رہنے کی جو خواہش دل میں جاگی تھی
جو سپنے ہم نے دیکھے تھے
وہ سپنے ٹوٹ جا ئیں گے
میری جان!
ٹھیک کہتی ہو
مقدر کے لکھے کو ہی اگر تسلیم کرنا ہے
تو پھر ایسی محبت کا
بھلا کیا فائدہ ہو گا
مگر اس کو
اگر چاہو تو میری بے بسی کہہ لو
۔۔۔مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔
ﻭﮨﻢ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮔﻤﺎﮞ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ، ﺧﻮﺍﺏ ﻭ ﺧﯿﺎﻝ
ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﻣِﺜﺎﻝ ﺩﮮ ﮐﮯ ﮨﻢ، ﺗﯿﺮﯼ ﻣِﺜﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﮨﮯ ﯾﮧ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﺟَﺮَﺱ ﮐﺎ
ﮨﮯ ﯾﮧ ﺷﻮﺭ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﮨﻢ ﺗﻮ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮨﻮ
ﮔﺌﮯ
ﺧﺎﺭ ﺑﮧ ﺧﺎﺭ، ﮔُﻞ ﺑﮧ ﮔُﻞ ﻓﺼﻞِ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﮔﺌﯽ
ﻓﺼﻞِ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﮔﺌﯽ ، ﺯﺧﻢ ﺑﺤﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺷﻮﺭ ﺍُﭨﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺗﺠﮭﮯ، ﻟﺬّﺕِ ﮔﻮﺵ ﺗﻮ
ﻣِﻠﯽ
ﺧُﻮﻥ ﺑﮩﺎ ﻣﮕﺮ ﺗِﺮﮮ، ﮨﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﻻﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﮨﻢ ﻧَﻔَﺴﺎﻥِ ﻭﺿْﻊ ﺩﺍﺭ ، ﻣُﺴﺘَﻤَﻌﺎﻥِ ﺑُﺮﺩﺑﺎﺭ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻭﺍﺳﻄﮯ، ﺍﯾﮏ ﻭﺑﺎﻝ ﮨﻮ
ﮔﺌﮯ
ﺟﻮﻥ! ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﺐ ﺗﻠﮏ، ﺍﭘﻨﺎ ﻣِﺜﺎﻟﯿﮧ ﺗﻼﺵ
ﺍﺏ ﮐﺌﯽ ﮨﺠﺮ ﮨﻮﭼﮑﮯ، ﺍﺏ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ
ﮔﺌﮯ!!!.
تم کو واپس بُلا رہا ھے یہ دل
کیا کوئی التجا ضروری ہے ؟
Tum ko wapis bula raha hai ye dil...
Kya koi ilteja zaroori hai....?
عِشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دِیا
ورنہ کیا بات تھی، کِس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اِس بات نے رونے نہ دِیا
رونے والوں سے کہو اُن کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دِیا
اُن سے مِل کر ہمیں رونا تھا، بہت رونا تھا
تنگئ وقت مُلاقات نے رونے نہ دِیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو، رو لیں فاکر !
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دِیا۔۔۔